شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثاقب کیف

  • غزل


دشت میں جس طرح شجر تنہا


دشت میں جس طرح شجر تنہا
کٹ گیا اس طرح سفر تنہا

گھومتا ہے ادھر ادھر تنہا
اک مسافر نگر نگر تنہا

چھپ کے بیٹھی ہے باز کے ڈر سے
فاختہ ایک شاخ پر تنہا

جی میں آتا ہے ہم بنا ڈالیں
شہر سے دور ایک گھر تنہا

اس ہجوم بلا میں عرصے سے
ڈھونڈھتی ہے کسے نظر تنہا

سوز دل شامل سخن کر لیں
لفظ رکھتے نہیں اثر تنہا


Leave a comment

+