شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رادھے شیام رستوگی احقر

  • غزل


آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ


آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ
ماہ کو تولے گا شاید اپنی رعنائی کے ساتھ

سیر کر عالم کی غافل دیدنی ہے یہ طلسم
لطف ہے ان دونوں آنکھوں کا تو بینائی کے ساتھ

دل کہیں ہے جاں کہیں ہے میں کہیں آنکھیں کہیں
دوستی اچھی نہیں محبوب ہرجائی کے ساتھ

اس میں ذکر یار ہے اس میں خیال یار ہے
اپنی خاموشی بھی ہم پلہ ہے گویائی کے ساتھ

عہد پیری میں وہ عالم نوجوانی کا کہاں
ولولے جاتے رہے ساری توانائی کے ساتھ

دیدۂ آہو کہاں وہ انکھڑیاں کالی کہاں
کیا مقابل کیجیے شہری کو صحرائی کے ساتھ

دل نہیں گرگ بغل ہے ضبط سے خوں کر اسے
کار دشمن کرتے ہیں اے دوست دانائی کے ساتھ

ایک بوسہ پر گریباں گیر اے ناداں نہ ہو
تیری رسوائی بھی ہے عاشق کی رسوائی کے ساتھ

دل تو دیوانہ ہے احقرؔ تو بھی دیوانہ نہ ہو
کوئی سودائی بنا کرتا ہے سودائی کے ساتھ


Leave a comment

+