شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رئیس الدین رئیس

  • غزل


سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے


سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے
بلا کے حبس میں بھی بادبان چاہتا ہے

وہ میرا دل نہیں میری زبان چاہتا ہے
مرا عدو ہے مجھی سے امان چاہتا ہے

ہزار اس کو وہی راستے بلاتے ہیں
قدم قدم وہ نیا آسمان چاہتا ہے

عجیب بات ہے مجھ سے مرا ہی آئینہ
مری شناخت کا کوئی نشان چاہتا ہے

میں خوش ہوں آج کہ میری انا کا سورج بھی
مرے ہی جسم کا اب سائبان چاہتا ہے

میں اس کی بات کی تردید کر تو دوں لیکن
مگر وہ شخص تو مجھ سے زبان چاہتا ہے


Leave a comment

+