شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر خالد

  • غزل


ہجر و وصال کے نئے منظر بھی آئیں گے


ہجر و وصال کے نئے منظر بھی آئیں گے
آبادیوں میں آئے تو پھر گھر بھی آئیں گے

آساں نہیں ہے اتنی تلاش جہان نو
ڈھونڈو گے گر جزیرے سمندر بھی آئیں گے

اے وقت ڈر ہے تیرے خداؤں کو بس یہی
بے ننگ و نام ہیں جو برابر بھی آئیں گے

دنیا اسی کا نام ہے ہر سمت ہی یہاں
بن کر یقیں گمان کے محور بھی آئیں گے

اے چشم التفات یہ فٹ پاتھ یہ سڑک
ہیں منتظر کہ ان پہ قلندر بھی آئیں گے

موجوں سے لڑنے دیجئے کچھ دیر وقت کی
جن میں ہے حوصلہ وہ ابھر کر بھی آئیں گے

ہیں نقش پا جہاں جہاں انساں کے، دیکھنا
قدموں میں آدمی کے وہ امبر بھی آئیں گے

مایوس یوں نہ بہر ادب ہو، تو صبر کر
تجھ کو عبور کرنے شناور بھی آئیں گے

ناکام سی رفاقتیں لے کر کبھی یہاں
دشت وفا کی سیر کو دلبر بھی آئیں گے

عاجز ہو عقل دیکھ کے صناعی جن کی وہ
حسن جہاں کے نت نئے پیکر بھی آئیں گے

تیرے لئے جو وہم ہے ان کے لئے یقیں
اکثر یہاں گمان کے محور بھی آئیں گے

بدلا ہوا مزاج ہے اس بار وقت کا
لہروں کی زد میں اب کے شناور بھی آئیں گے

باتوں سے پھول جھڑتے تھے لیکن خبر نہ تھی
اک دن لبوں سے ان کے ہی نشتر بھی آئیں گے

ڈھاؤ گے تم جو محور افکار کو تو پھر
یہ جان لو کہ غیب سے لشکر بھی آئیں گے

ہم وہ خدا ترس ہیں فقیری ہے جن کی شان
یوں ہی رہے تو در پہ سکندر بھی آئیں گے

کب عشق رک سکا ہے مصائب سے وقت کے
دیوانے خاک و خوں میں نہا کر بھی آئیں گے

ہونی ہے ختم ان کی بھی مہلت یقیں رکھو
یہ وقت کے خدا تہ خنجر بھی آئیں گے

آفاق سے پرے ہے مرا محور خیال
ہے حوصلہ تو پھر نئے شہ پر بھی آئیں گے


Leave a comment

+