شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بدیع الزماں خاور

  • غزل


کھڑا تھا کون کہاں کچھ پتا چلا ہی نہیں


کھڑا تھا کون کہاں کچھ پتا چلا ہی نہیں
میں راستے میں کسی موڑ پر رکا ہی نہیں

ہوائیں تیز تھیں اتنی کہ ایک دل کے سوا
کوئی چراغ سر رہ گزر جلا ہی نہیں

کہاں سے خنجر و شمشیر آزماتا میں
مرے عدو سے مرا سامنا ہوا ہی نہیں

دکھوں کی آگ میں ہر شخص جل کے راکھ ہوا
کسی غریب کے دل سے دھواں اٹھا ہی نہیں

ہمارا شہر تمنا بہت حسیں تھا مگر
اجڑ کے رہ گیا ایسا کہ پھر بسا ہی نہیں

وہ بن گیا مرا ناقد پتا نہیں کیوں کر
مرا کلام تو اس نے کبھی پڑھا ہی نہیں

میں اپنے دور کی آواز تھا مگر خاورؔ
کسی نے بزم جہاں میں مجھے سنا ہی نہیں


Leave a comment

+