شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پرتپال سنگھ بیتاب

  • غزل


صحرا بسے ہوئے تھے ہماری نگاہ میں


صحرا بسے ہوئے تھے ہماری نگاہ میں
خیمہ لگا نہ پائے ہم آب و گیاہ میں

صدیاں ہماری راہ کو روکے کھڑی رہیں
اور زندگی گزرتی رہی سال و ماہ میں

بس جاتے ہم کہیں بھی سمندر کے درمیاں
آیا مگر نہ کوئی جزیرہ ہی راہ میں

اک بار ہاتھ لگ گئے اس اندھی بھیڑ کے
واپس نہ لوٹ پائے ہم اپنی پناہ میں

وقت اور مقام سے نہ کبھی ہم گزر سکے
گزرے مقام و وقت فقط رسم و راہ میں

کچھ دیر زیر پا جو ٹھہرتی کوئی زمیں
ہم بھی قیام کرتے کسی جائے گاہ میں

بیتابؔ پستیوں سے نکل ہی نہ پائے ہم
کیا کیا بلندیاں تھیں ہماری نگاہ میں


Leave a comment

+