شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہر بلگرامی

  • غزل


اگر نہ درد سے اس دل کو آشنا کرتے


اگر نہ درد سے اس دل کو آشنا کرتے
غم حیات کا کس طرح تجزیا کرتے

خدا نخواستہ کشتی جو ڈوبنے لگتی
سوا خدا کے بھلا کیا یہ ناخدا کرتے

عجب نہیں تھا کہ آ جاتا ہوش میں بیمار
قریب آ کے جو دامن سے وہ ہوا کرتے

کٹی تصور حوران خلد میں جن کی
ہمارے ان کے بھلا کیا وہ تصفیہ کرتے

ہم ایسے رند پس مرگ بھی وہاں جاتے
نہ پینا جرم ہو حکماً جہاں پیا کرتے

سخی کے سامنے پھیلے ہوئے ہیں جن کے ہاتھ
ہم ایسے لوگوں سے کیا عرض مدعا کرتے

یہ درد دل تو ہے اس زندگی کا مترادف
مرض اگر کوئی ہوتا تو کچھ دوا کرتے

نہ ہوتے دل سے جو مجبور کر کے ترک وفا
اسے بھی ہم ذرا تڑپا کے تجربہ کرتے

تنک مزاجیٔ خوباں کا گر پتا ہوتا
مناتے پھر انہیں پہلے تو ہم خفا کرتے

گئے ہیں دیر و حرم ہو کے لا مکاں کی طرف
قیام رہرو منزل یوں جا بجا کرتے

اٹھایا مصلحتاً ہم نے خون کا دعویٰ
کسی کی آنکھ سر حشر نیچی کیا کرتے

نہ پاس لغزش آدم اگر ہمیں ہوتا
علاج تیرا بھی اے دیو اشتہا کرتے

نہ ہوتی اپنے پرائے کی پھر ہمیں تمییز
دغا نہ مل کے اگر یار آشنا کرتے

نیاز و ناز نہ یوں ہوتے لازم و ملزوم
نہ یوں کسی کے اشاروں پہ ہم چلا کرتے

درون دل کی صدا ہے مگر غزل ماہرؔ
کہ شعر شعر پہ سامع ہیں واہ وا کرتے


Leave a comment

+