شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید شاہین

  • غزل


دل گرفتہ کے سب پیچ و تاب کھول کے دیکھ


دل گرفتہ کے سب پیچ و تاب کھول کے دیکھ
ہوا کا زور محیط حباب کھول کے دیکھ

مرے لہو کو نمائش گہہ وفا سے اٹھا
ہے جمع و خرچ بہت یہ حساب کھول کے دیکھ

یہ کس کے ظلم سے ہر شے ہے مثل سنگ خموش
اے نقش گر در شہر خراب کھول کے دیکھ

کہیں تو دشت میں ٹھہرے گی موج آب گریز
رواں ہوا ہے تو راز سراب کھول کے دیکھ

دھڑکتے دل سے نہ موجوں کی رزم گہہ میں اتر
خط سفر کو کف دست آب کھول کے دیکھ

ہیں کب سے تشنۂ معنی مرے حروف بدن
فراغ ہو تو کبھی یہ کتاب کھول کے دیکھ

ذرا سراغ لگا میرے رنگ خستہ کا
غموں کی دھوپ میں بند نقاب کھول کے دیکھ

گلوں کو کس لیے ڈستی ہیں چاندنی راتیں
کہاں ہے زہر رگ ماہتاب کھول کے دیکھ

مزا تو جب ہے کہ گلشن میں جشن شعلہ ہو
بھری بہار میں داغ گلاب کھول کے دیکھ

کنار دشت بلا کون ہے مکیں شاہیںؔ
خموش سونی حویلی کا باب کھول کے دیکھ


Leave a comment

+