چشم دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں چمکتی ہے
دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں
آگ وہ دیر تک دہکتی ہے
تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا
صحن دل میں بہت چہکتی ہے
دل دہلتا ہے دوسری کا بھی
ایک دیوار جب درکتی ہے
چھپنے والی نہیں مری چاہت
تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
جانے کب وہ کریں وفا دل سے
روز چشم وفا پھڑکتی ہے
جلنے والوں سے کوئی کیا پوچھے
کیوں انہیں روشنی کھٹکتی ہے
آس ٹوٹی تو ساتھ ہی راغبؔ
سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے
Leave a comment