شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسن شاہنواز زیدی

  • غزل


پہلے جیسا نہیں رہا ہوں


پہلے جیسا نہیں رہا ہوں
میں اندر تک ٹوٹ گیا ہوں

جیسے کاغذ پھٹ جاتا ہے
دو ٹکڑوں میں پڑا ہوا ہوں

دوست مرا کیوں ساتھ نبھاتے
جب میں ان کو چھوڑ چکا ہوں

کتنا چھوٹا سا لگتا ہوں
دور سے خود کو دیکھ رہا ہوں

شیشے کی دیواروں والے
اک کمرے میں قید پڑا ہوں

لوگوں کے ظاہر باطن کو
دیکھتا ہوں ہنستا رہتا ہوں

تصویروں کا قحط پڑا ہے
اور میں رنگ بہا بیٹھا ہوں

کوئی میرا حال نہ پوچھے
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں


Leave a comment

+