شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حارث بلال

  • غزل


اے بگولے کے لبادے میں سمائی ہوئی ریت


اے بگولے کے لبادے میں سمائی ہوئی ریت
ساتھ رکھ لے مجھے اے وجد میں آئی ہوئی ریت

تاکہ سورج قریں آئے تو یہ صحرا ہو جائے
سو سمندر تلے اس نے ہے بچھائی ہوئی ریت

بیٹھے بیٹھے مجھے چوراہا بنا دیتی ہے
چار سمتوں سے مری سمت اڑائی ہوئی ریت

شمع بینائی منڈیروں کا سفر کرتی رہی
دل اڑاتا رہا آنکھوں میں بسائی ہوئی ریت

گھر کی بنیاد میں آرام نہیں کرتی ہے
اے مرے دوست یہ ٹیلوں سے اٹھائی ہوئی ریت

ہر چمکتا ہوا ذرہ ہے ستارہ حارثؔ
آسماں ہے مرے قدموں میں بچھائی ہوئی ریت


Leave a comment

+