شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

راحت حسن

  • غزل


رنج اک تلخ حقیقت کا فقط ہے مجھ کو


رنج اک تلخ حقیقت کا فقط ہے مجھ کو
میرے احباب نے آنکا ہی غلط ہے مجھ کو

بعد مدت کے گلابوں کی مہک آئی ہے
اس نے پردیس سے بھیجا کوئی خط ہے مجھ کو

موج طوفان سے بیگانہ ہوا ہوں پھر میں
پھر میسر ہوئی آسانیٔ شط ہے مجھ کو

حرف کی شکل میں ڈھلتی ہیں لکیریں خود سے
آ کے دیتا کوئی پیغام نقط ہے مجھ کو

کر دیا کند ہواؤں کی نمی نے جس کو
اسی خنجر سے لگانا کوئی قط ہے مجھ کو

کنج تاریک میں یوں جھانک رہا ہوں راحتؔ
جیسے درکار کوئی بیضۂ بط ہے مجھ کو


Leave a comment

+