شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مبارک شمیم

  • غزل


خزاں میں سوکھ گیا میں تو یہ مقدر تھا


خزاں میں سوکھ گیا میں تو یہ مقدر تھا
وہ نونہال کہاں ہے جو میرے اندر تھا

وہ آبلے جو رہ آرزو میں پھوٹ گئے
سفر کا لطف انہیں آبلوں میں مضمر تھا

نقوش درد تراشے غموں کے رنگ بھرے
میں جیسے دست مشیت میں کوئی پتھر تھا

تمہاری یاد کے سائے بھی کچھ سمٹ سے گئے
غموں کی دھوپ تو باہر تھی عکس اندر تھا

مرا وجود بھی تاریخ ہے زمانے کی
مجھے بھی پڑھ کے کبھی دیکھتے تو بہتر تھا

دیار فکر و نظر کچھ دھواں دھواں سا ہے
جنوں کی شمعیں تھیں روشن تو خوب منظر تھا

وہی ہے آج زمیں پر خراب و خستہ و خوار
جو اپنی شان میں نورانیوں سے بہتر تھا

شمیمؔ آج سر رہ گزار زیست ملا
جو تہہ بہ تہہ گھنے زخموں کا ایک پیکر تھا


Leave a comment

+