شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فراست رضوی

  • غزل


ہم نے دل اس کے تئیں نذر گزارا اپنا


ہم نے دل اس کے تئیں نذر گزارا اپنا
اس نے سمجھا نہ سر بزم اشارا اپنا

کیا پکاروں کہ صدا بھی نہ وہاں جائے گی
جانے کس دیس گیا یار وہ پیارا اپنا

لے گیا دور اسے خواب عدم کا افسوں
نیند سے پھر نہ اٹھا انجمن آرا اپنا

عمر کے ساتھ جدا ہوتے چلے جائیں گے یار
کم نہیں ہوگا کسی طور خسارا اپنا

لوٹ کر آئے تو بستی ہے نہ تالاب نہ باغ
ہم یہیں چھوڑ گئے تھے وہ نظارا اپنا

شام ہوتے ہی بھٹکتے تھے اسے دیکھنے کو
اسی تاریک گلی میں تھا ستارا اپنا

غم ہوئے ایسے کہ آتا ہی نہیں کوئی جواب
نام لے لے کے بہت ہم نے پکارا اپنا

یہ جو گلیاں ہیں مرے شہر کی ہیں میری رفیق
انہی گلیوں میں بہت وقت گزارا اپنا

ہم وہ بیمار انا ہیں کہ ہوئے جس سے خفا
اس کو چہرہ بھی دکھایا نہ دوبارا اپنا

بارہا پیش ہوا خلعت شاہی ہم کو
ہم نے ملبوس گدائی نہ اتارا اپنا

کیا خبر بن گئی کس طرح غزل کی صورت
ہم نے تو درد ہی کاغذ پہ اتارا اپنا

یا علیؑ کہنے سے ہٹ جاتے ہیں رستے سے پہاڑ
اک یہی نام ہے مشکل میں سہارا اپنا


Leave a comment

+