شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بسمل دہلوی

  • غزل


درد فرقت سے قرابت سی ہوئی جاتی ہے


درد فرقت سے قرابت سی ہوئی جاتی ہے
ہائے یہ بھی مری عادت سی ہوئی جاتی ہے

اف دم نزع بھر آئی ہیں یہ کس کی آنکھیں
مجھ کو جینے کی ضرورت سی ہوئی جاتی ہے

رشک کی یہ خرد آشوبیاں اللہ اللہ
اپنے سایہ سے بھی وحشت سی ہوئی جاتی ہے

حسن آمادۂ تکمیل جفا ہے اے دوست
پھر مجھے اپنی ضرورت سی ہوئی جاتی ہے

جور پیہم میں ذرا جدتیں پیدا کیجے
لذت غم مری عادت سی ہوئی جاتی ہے

باعث سہو دو عالم تھی کبھی بادہ کشی
اور یہ اب تو عبادت سی ہوئی جاتی ہے

جب سے سمجھا ہوں میں تخلیق کا مقصد بسملؔ
ذرے ذرے سے محبت سی ہوئی جاتی ہے


Leave a comment

+