شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

عبید اللہ صدیقی

  • غزل


اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا


اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا
کچھ بھی نظر نہ آیا مجھے خواب کے سوا

پھر کس کے کام آئے گی میری شناوری
دریا میں کچھ نہ ہوگا جو گرداب کے سوا

اس روشنی میں جس سے منور ہے کائنات
سب کچھ دکھائی دیتا ہے مہتاب کے سوا

باغ جہاں کی سیر میں اب کیا بتاؤں میں
کیا کیا مجھے ملا گل شاداب کے سوا

یہ آنکھیں یہ دماغ یہ زخموں کا گھر بدن
سب محو خواب ہیں دل بے تاب کے سوا

اہل جنوں کو اس کی خبر دیر سے ہوئی
اک گھر بھی ہوگا دشت فسوں تاب کے سوا


Leave a comment

+