شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خرم آفاق

  • غزل


کسی طرح سنبھل نہیں رہا ہوں میں


کسی طرح سنبھل نہیں رہا ہوں میں
کہ بہہ رہا ہوں چل نہیں رہا ہوں میں

گلے لگا اے موسموں کے دیوتا
بدل مجھے بدل نہیں رہا ہوں میں

یہ سکھ بھی ہے کہ تیرے طاقچے میں ہوں
یہ دکھ بھی ہے کہ جل نہیں رہا ہوں میں

سوال پوچھنے لگے ہیں راستے
سفر پہ کیوں نکل نہیں رہا ہوں میں

طلوع ہو رہا ہوں دوسری طرف
اداس مت ہو ڈھل نہیں رہا ہوں میں


Leave a comment

+