بازار جہالت میں سخن بیچ رہا ہوں
یہ گیت یہ نغمات یہ فن بیچ رہا ہوں
ہے کوئی خریدار تو آواز لگائے
روٹی کے عوض شعر و سخن بیچ رہا ہوں
کیا دام لگاتے ہو چلو تم ہی بتاؤ
سچائی کا انمول رتن بیچ رہا ہوں
پرکھوں نے بنایا تھا جسے لاکھ جتن سے
تہذیب و ادب کا وہ بھون بیچ رہا ہوں
تم ٹھیک ہی کہتے تھے تجارت نہیں آساں
اب کون خریدے جو سخن بیچ رہا ہوں
Leave a comment