شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فرحت زاہد

  • غزل


خون میں ڈوبی ردائیں نہیں دیکھی جاتیں


خون میں ڈوبی ردائیں نہیں دیکھی جاتیں
بین کرتی ہوئی مائیں نہیں دیکھی جاتیں

ختم ہوتے ہوئے آنسو ہوں کہ تھمتا ہوا درد
ہم سے اب اور سزائیں نہیں دیکھی جاتیں

جانے والوں کا بھلا کیسے تمہیں دیں پرسا
خالی ہاتھوں کی دعائیں نہیں دیکھی جاتیں

مرنے والوں کی صدائیں تو میں سن سکتی ہوں
جینے والوں کی کراہیں نہیں دیکھی جاتیں

پھول توڑے ہیں بجھائے ہیں مرے گھر کے چراغ
دشمنا تیری خطائیں نہیں دیکھی جاتیں

اب تو آنکھوں میں دھواں بھرنے لگا ہے فرحتؔ
ایسی رنجور فضائیں نہیں دیکھی جاتیں


Leave a comment

+