شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قلق میرٹھی

  • غزل


ان سے کہا کہ صدق محبت مگر دروغ


ان سے کہا کہ صدق محبت مگر دروغ
کہنے لگے یہ سچ ہے کہ ہر طرح پر دروغ

دزد حنا پہ دزدیٔ جاں کا ہے اتہام
خون دل و جگر سر تیغ نظر دروغ

آنا صباح حشر کا شام فراق جھوٹ
اڑ جانا شور نالہ سے رنگ سحر دروغ

ہر لحظہ تیغ جاننا ابرو کا افتراک
ہر لمحہ ذوق قتل میں سر ہاتھ پر دروغ

سر سنگ در سے پھوڑنا وحشت میں ناثبوت
گر جانا سیل اشک سے دیوار و در دروغ

خون جگر بجائے مئے ناب نادرست
آتش زنی شعلہ فشاں چشم تر دروغ

جاں اور فگار تیر مژہ کس قدر غلط
دل اور اسیر رشتۂ مو سر بسر دروغ

بے جاں ہو اور جیتے ہو فرقت میں اختراع
بے دل ہو اور نیاز نگہ ہے جگر دروغ

ٹکڑے نگاہ ناز سے دل آپ کا درست
وہم نظر سے دور ہماری کمر دروغ

اڑتا ہے رنگ ساتھ ہی آواز ناز کے
چین جبیں سے آپ کو اتنا خطر دروغ

ہے نا سپاس وصل دل ہجر دوست خبط
ہے پاک باز چشم حقیقت نگر دروغ

کوچے میں میرے لے کے صبا آئے گی بجا
تم خاک ہو گئے ہو سر رہ گزر دروغ

ہم کو تلاش آپ کی اور در بہ در محال
جذب دل و جگر سے امید اثر دروغ

ہم اور نعش اٹھانے کو آتے خلاف عقل
مرگ شب فراق کی ہر سو خبر دروغ

یہ ضبط وضع نام قلقؔ قصہ مختصر
شاعر ہو ہر طرح ہے تمہارا ہنر دروغ


Leave a comment

+