شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اقبال اشہر

  • غزل


بھیگی بھیگی پلکوں پر یہ جو اک ستارہ ہے


بھیگی بھیگی پلکوں پر یہ جو اک ستارہ ہے
چاہتوں کے موسم کا آخری شمارہ ہے

امن کے پرندوں کی سرحدیں نہیں ہوتیں
ہم جہاں ٹھہر جائیں وہ وطن ہمارا ہے

شام دستکیں دے گی تب سمجھ میں آئے گا
زندگی تلاطم ہے موت اک سہارا ہے

کیا عجب پہیلی ہے زندگی کا میلہ بھی
پہلے خود کو ڈھونڈا ہے پھر تجھے پکارا ہے

آرزو ہے سورج کو آئنہ دکھانے کی
روشنی کی صحبت میں ایک دن گزارا ہے


Leave a comment

+