شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

نازش سکندرپوری

  • غزل


محبت میں نگاہ شرمگیں جینے نہیں دیتی


محبت میں نگاہ شرمگیں جینے نہیں دیتی
فلک بدنام ہے لیکن زمیں جینے نہیں دیتی

حیات و موت کی یہ کشمکش بھی اک تماشا ہے
کہ ہاں مرنے نہیں دیتی نہیں جینے نہیں دیتی

وہ کہتے ہیں مرے نقش قدم کی کیا خطا اس میں
جو تجھ کو تیری آوارہ جبیں جینے نہیں دیتی

رہوں گلشن میں یا صحرا میں دیوانہ ہی کہتی ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے کہیں جینے نہیں دیتی

جنوں کہتا ہے کوئی تار بھی باقی نہ رہ جائے
خرد کو فکر جیب و آستیں جینے نہیں دیتی

مبارک نالۂ مظلوم وہ ظالم پکار اٹھا
ارے اب تیری آہ آتشیں جینے نہیں دیتی

عمل کی قوتیں ہیں طابع ہوش و خرد نازشؔ
مجھے میری نگاہ دور بیں میں جینے نہیں دیتی


Leave a comment

+