شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثروت حسین

  • غزل


منہدم ہوتی ہوئی آبادیوں میں فرصت یک خواب ہوتے


منہدم ہوتی ہوئی آبادیوں میں فرصت یک خواب ہوتے
ہم بھی اپنے خشت زاروں کے لیے آسودگی کا باب ہوتے

شہر آزردہ فضا میں آبگینوں کو بروئے کار لاتے
شام کی ان خانماں ویرانیوں میں صحبت احباب ہوتے

تازہ و غم ناک رکھتے آس اور امید کی سب کونپلوں کو
اور پھر ہم راہیٔ باد شبانہ کے لیے مہتاب ہوتے

خود کلامی کے بھنور میں ڈوبتی پرچھائیں بن کر رہ گئے ہیں
اس اندھیری رات میں گھر سے نکلتے تو ستارہ یاب ہوتے

خاک آلودہ زمانوں پر برستی جھومتی کالی گھٹائیں
موسموں کی آب و خاک آرائیوں سے آئنے سیراب ہوتے


Leave a comment

+