شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

راحل بخاری

  • غزل


سنا ہے چپ کی بھی کوئی پکار ہوتی ہے


سنا ہے چپ کی بھی کوئی پکار ہوتی ہے
یہ بد گمانی مجھے بار بار ہوتی ہے

خیال و خواب کی دنیا سراب کی دنیا
نظر فقیر کی پردے کے پار ہوتی ہے

عذاب دیدہ کوئی رنگ سینچتے کیسے
خزاں گزیدگی آشفتہ بار ہوتی ہے

میں اپنے حصے کے منظر اجالنے سے رہا
یہ آگہی تو بہت دل فگار ہوتی ہے

امید ہی سے زمانے میں شاد کامی ہے
یہی وہ شاخ ہے جو سایہ دار ہوتی ہے

یہ رات ماتمی ملبوس ہی میں جچتی تھی
یہ رات ہی تو ہمیں پرسہ دار ہوتی ہے

میں جی رہا ہوں تو جینے کا حوصلہ دیکھو
یہ زخم کوشی تغافل شعار ہوتی ہے


Leave a comment

+