شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہر بلگرامی

  • غزل


مستیٔ دو عالم اک مرکز پہ سمٹ آئی


مستیٔ دو عالم اک مرکز پہ سمٹ آئی
سو کر وہ اٹھا کچھ یوں لیتا ہوا انگڑائی

پر شوق نظر میری کچھ دیکھ کے للچائی
کچھ اس کے اشاروں سے وہ حوصلہ افزائی

یک لخت ہوئے رخصت سب صبر و شکیبائی
تڑپا گئی جب آئی اس سمت سے پروائی

کیا اس کا اثر اس پر مجمع ہو کہ تنہائی
دیوانہ تو دیوانہ سودائی تو سودائی

پروانہ ہے دیوانہ لو شمع کی تھرائی
کیا رنگ وفا لائی اک پل کی شناسائی

فرہاد گہے مجنوں بن کر یہاں جب آئے
روداد جنوں ہم نے ہر مرتبہ دہرائی

میری ہی بدولت وہ مشہور دو عالم ہیں
رسوائی الفت یہ ان کے بڑے کام آئی

پرسان الم ہوتے رسماً ہی کبھی صاحب
زحمت نہ گئی اتنی بھی آپ سے فرمائی

اے باد صبا جا کر ان سے تو ہی یہ کہہ دے
دیدار کا خواہاں ہوں ملنے کا تمنائی

میں چپ ہوں مگر کہیے کیا حال ہے یہ آخر
ماتھے پہ پسینا ہے آواز ہے بھرائی

بیمار محبت کا بس اب ہے خدا حافظ
کام آئی مسیحا کی کچھ بھی نہ مسیحائی

کیا وہ بھی زمانہ تھا معراج محبت کا
دن رات در جاناں پر ناصیہ فرسائی

چاہے جسے دے ذلت چاہے جسے دے عزت
رائی کو کرے پربت پربت کو کرے رائی

بس یوں ہی سمجھے اب حال دل افسردہ
چنگاری دہکتی اک جس طرح ہو کجلائی

بازار نگاراں کا منظر وہ ارے توبہ
سانچے میں ڈھلی ہر شے اک پیکر رعنائی

گردوں پہ مہ نو پھر دکھلائی دیا ماہرؔ
پھر عید مبارک کی ہر سو سے صدا آئی


Leave a comment

+