شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قمر اقبال

  • غزل


جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی


جو پڑ گئی تھی گرہ دل میں کھولتے ہم بھی
وہ بات کرتا تو کچھ اس سے بولتے ہم بھی

ہوا کو کس نے چھوا ہے جو تجھ کو چھو پاتے
خلا میں پھرتے ہیں رستہ ٹٹولتے ہم بھی

کہاں پہ ٹھہریں کہ مانند برگ آوارہ
ہوا کے دوش پہ پھرتے ہیں ڈولتے ہم بھی

اندھیرا شہر کی گلیوں کا گھر میں در آتا
ذرا جو رات کو دروازہ کھولتے ہم بھی

قمرؔ یہ لطف نہ جینے کا پھر ہمیں آتا
لہو میں زہر اگر خود نہ گھولتے ہم بھی


Leave a comment

+