شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر ساہنی

  • غزل


پوشیدہ تھا جو سب پہ عیاں کیوں نہیں ہوا


پوشیدہ تھا جو سب پہ عیاں کیوں نہیں ہوا
حق میں ہمارے نیک گماں کیوں نہیں ہوا

سرسبز ہو کے دل نشیں بن جاتی یہ زمیں
ایسا گداز سیل رواں کیوں نہیں ہوا

نغموں کے درمیان فسانہ تھا پر کشش
دل کش فضا میں رقص جواں کیوں نہیں ہوا

کل تک گلی ہماری درخشاں نہ ہو سکی
اب تو بتاؤ ایسا میاں کیوں نہیں ہوا

شان و شکوہ میں وہ ہمیشہ تھا تازہ دم
گھر کی فضا میں جذب مکاں کیوں نہیں ہوا

جلتا رہا ہمارا زمانہ چہار سو
شعلوں کے بیچ اس کا جہاں کیوں نہیں ہوا

چہرہ کھلا سا ان کی نظر کے قریب تھا
پیش نگاہ درد نہاں کیوں نہیں ہوا

حیرت زدہ تھی عقل ہماری یہ سوچ کر
جو کچھ وہاں ہوا تھا یہاں کیوں نہیں ہوا

حمد و ثنا دعا سے سنوارا گیا تھا شہر
جعفرؔ مگر وہ جائے اماں کیوں نہیں ہوا


Leave a comment

+