شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مبارک شمیم

  • غزل


میں وہ اک جنس گراں ہوں سر بازار کہ بس


میں وہ اک جنس گراں ہوں سر بازار کہ بس
ہاتھ یوں ملتے ہیں حسرت سے خریدار کہ بس

آج تک اہل وفا سے نہ کسی نے پوچھا
اور جاری رہے شغل رسن و دار کہ بس

چلچلاتی ہوئی یہ دھوپ یہ تپتے میداں
اور ادھر حوصلۂ دل کا وہ اصرار کہ بس

آ گیا یزداں کو ترس آخر کار
اتنا شرمندہ و نادم تھا گنہ گار کہ بس

شدت شوق میں حد سے نہ گزر جائے کہیں
کوئی کر دے دل ناداں کو خبردار کہ بس

جی یہی کہتا ہے اب چل کے وہیں جا ٹھہرو
ہم نے ویرانوں میں دیکھے ہیں وہ آثار کہ بس

دولت عیش ملا کرتی ہے نادانوں کو
اہل ادراک جیا کرتے ہیں یوں خوار کہ بس

چپ ہی اس دور میں رہیے تو مناسب ہے شمیمؔ
کان یوں رکھتے ہیں ورنہ در و دیوار کہ بس


Leave a comment

+