شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر عقیل

  • غزل


بے یقینی کا ہر اک سمت اثر جاگتا ہے


بے یقینی کا ہر اک سمت اثر جاگتا ہے
ایسی وحشت ہے کہ دیوار میں در جاگتا ہے

شام کو کھلتے ہیں در اور کسی دنیا کے
رات کو فکر کا بے انت سفر جاگتا ہے

جس کو چاہیں یہ اسے اپنا بنا سکتی ہیں
تیری آنکھوں کے سمندر میں ہنر جاگتا ہے

ہو نہ جائے کہیں مسمار یہ اس بارش میں
گھر کی بنیاد میں خاموش کھنڈر جاگتا ہے

اک نیا حوصلہ دیتی ہے شکستہ پائی
پاؤں زخمی ہوں تو پھر عزم سفر جاگتا ہے

تجھ کو درکار ہے اک نیند کی گولی ناصرؔ
جسم سوتا ہے ترا ذہن مگر جاگتا ہے


Leave a comment

+