شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

آرزو لکھنوی

  • غزل


تسکین دل کا یہ کیا قرینہ


تسکین دل کا یہ کیا قرینہ
روکوں جو نالہ پھٹ جائے سینہ

بڑھتی امنگیں کیا پر بنیں گی
ہے کس ہوا میں دل کا سفینہ

ہیں کیا معمہ یہ آگ پانی
پیتا ہوں آنسو جلتا ہے سینہ

غم تجھ کو پیارا تو مجھ کو پیاری
دل کی تمنا نازک حسینہ

آج اس نے آنسو ہنس ہنس کے پونچھے
خشکی میں ابھرا ڈوبا سفینہ

تاریخ دل کی خود نقش دل ہے
کھا کھا کے چوٹیں چٹکا نگینہ

ٹوٹا ہوا دل الفت بھرا تھا
ڈھا کر عمارت پایا دفینہ

حد خرد سے ذات اس کی برتر
اونچی ہے منزل نیچا ہے زینہ

تم آرزوؔ ہو تم آرزوؔ ہو
پھر کیسی رنجش پھر کیسا کینہ


Leave a comment

+