شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر شہزاد

  • غزل


دھن نہیں کوئی مدعا کیسا


دھن نہیں کوئی مدعا کیسا
دل ہوا دیکھ بے صدا کیسا

میری توصیف سال صدیاں ثنا
میں نہیں جب تو پھر خدا کیسا

لفٹ کھمبے تو اور میں پیڑ پہاڑ
وقت وادی میں جم گیا کیسا

دوسروں کی کہی سنی پہ نہ جا
تو بتا تجھ سے میں رہا کیسا

شب کی شب ساتھ پھر نہ بول نہ بات
کیا کہوں ہے وہ سانورا کیسا

میں تجھی میں نہاں تجھی پہ عیاں
میں ہوں موجود ماورا کیسا

رنگ میں باس انگ امنگ میں پیاس
پھول ہی ہے وہ پھول سا کیسا

سامنے سچ کے کربلا و دمشق
کلمۂ حق پہ اور صلہ کیسا

دو الگ بنس پرکھ پت برہا
اب ترے سنگ سلسلہ کیسا

کہر کہسار رات تیرا ساتھ
چاند نکلا نیا نیا کیسا

آرزو اک جنم مرن یکجا
مجھ میں تجھ میں تھا رابطہ کیسا

ظلم منصب سبھی کا تو ہو کہ میں
لوں یہاں حق خوں بہا کیسا

دھڑکے پل چھن سجن سلونے بن
دل ہے بے درد بانورا کیسا


Leave a comment

+