شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فراست رضوی

  • غزل


کوئی رہزن نہ مسافر نہ شجر کی صورت


کوئی رہزن نہ مسافر نہ شجر کی صورت
دیکھ اس اجڑی ہوئی راہ گزر کی صورت

جانے کب خانہ بدوشی کے یہ دن گزریں گے
مدتیں ہو گئیں دیکھے ہوئے گھر کی صورت

پہلے دکھ تھا کہ سر راہ گزر بیٹھے ہیں
اب کوئی رنج نہیں رنج سفر کی صورت

اپنے ہی عکس سے فرصت نہیں ملتی ورنہ
آئنے میں ہے کہیں آئینہ گر کی صورت

اتنے پایاب نہیں ہے کہ ہر اک کو مل جائیں
ہم تو رہتے ہیں سمندر میں گہر کی صورت

آج آنکھوں میں نمی ہے تو غنیمت جانو
قحط گریہ میں کہاں دیدۂ تر کی صورت

بیچ رستے میں ہمیں چھوڑ کے جانے والے
ساتھ ہوں لیں گے ترے گرد سفر کی صورت

چشم عبرت سے فراستؔ میں اسے دیکھتا ہوں
کل یہ ویرانہ تھا آباد نگر کی صورت


Leave a comment

+