شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

افتخار شفیع

  • غزل


جز قربت جاں پردۂ جاں کوئی نہیں تھا


جز قربت جاں پردۂ جاں کوئی نہیں تھا
وہ تھا تو وہاں اور جہاں کوئی نہیں تھا

تھا ایک خیال اور خیال رخ جاناں
وہ واہمۂ وہم و گماں کوئی نہیں تھا

اک ساعت صد سال میں ٹھہرا تھا کہیں دل
پھر قافلۂ عمر رواں کوئی نہیں تھا

تھا کوئی وہاں جو ہے یہاں بھی ہے وہاں بھی
جو ہوں میں یہاں ہوں میں وہاں کوئی نہیں تھا

صد شکر زمانے کو نہ تھا گوش سماعت
ہم کو بھی مگر ربط زباں کوئی نہیں تھا


Leave a comment

+