شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یاسمین حبیب

  • غزل


کسی کشش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا


کسی کشش کے کسی سلسلے کا ہونا تھا
ہمیں بھی آخرش اک دائرے کا ہونا تھا

ابھی سے اچھا ہوا رات سو گئی ورنہ
کبھی تو ختم سفر رت جگے کا ہونا تھا

برہنہ تن بڑی گزری تھی زندگی اپنی
لباس ہم کو ہی اک دوسرے کا ہونا تھا

ہم اپنا دیدۂ بینا پہن کے نکلے تھے
سڑک کے بیچ کسی حادثے کا ہونا تھا

ہمارے پاؤں سے لپٹی ہوئی قیامت تھی
قدم قدم پہ کسی زلزلے کا ہونا تھا

ہم اپنے سامنے ہر لمحہ مرتے رہتے تھے
ہمارے دل میں کسی مقبرے کا ہونا تھا

تمام رات بلاتا رہا ہے اک تارہ
افق کے پار کسی معجزے کا ہونا تھا

کسی کے سامنے اٹھی نظر تو بہہ نکلا
ہماری آنکھ میں کیا آبلے کا ہونا تھا

حصار شہر سے باہر نکل ہی آئے ہیں
کبھی ہمیں بھی کسی راستے کا ہونا تھا


Leave a comment

+