شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید شاہین

  • غزل


خطرہ سا کہیں مری اکائی کے لیے ہے


خطرہ سا کہیں میری اکائی کے لیے ہے
ہر لمحہ یہاں خود سے جدائی کے لیے ہے

اک ہاتھ کو کچھ کرنے کی عادت نہیں ڈالی
جو دوسرا ہے صرف گدائی کے لیے ہے

ہر شخص کی ہے شام سے اپنی کوئی نسبت
میرے لیے تو دن سے رہائی کے لیے ہے

دن سارا گزر جاتا ہے اک دوری میں خود سے
اور شام کسی اور جدائی کے لیے ہے

موقع ہے کہ احسان کوئی اس کا چکا دوں
اک لمحہ مرے پاس برائی کے لیے ہے

ہے کون جھٹک دے جو کسی دست جفا کو
یہ خلق خدا صرف دہائی کے لیے ہے

اب خوں کو بنانا ہے ترے ہونٹ کی سرخی
بچ جائے گا جو دست حنائی کے لیے ہے

تہمت سی کوئی خود پہ لگا رکھی ہے شاہیںؔ
اک داغ سا انگشت نمائی کے لیے ہے

RECITATIONS نعمان شوق



00:00/00:00 خطرہ سا کہیں مری اکائی کے لیے ہے نعمان شوق

Leave a comment

+