شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دانیال طریر

  • غزل


خواب جزیرہ بن سکتے تھے نہیں بنے


خواب جزیرہ بن سکتے تھے نہیں بنے
ہم بھی قصہ بن سکتے تھے نہیں بنے

کرنیں برف زمینوں تک پہنچانے کو
بادل شیشہ بن سکتے تھے نہیں بنے

قطرہ قطرہ بہتے رہے بے مایہ رہے
آنسو دریا بن سکتے تھے نہیں بنے

اپنا گھر بھی ڈھونڈ نہ پاتے کھو جاتے
جگنو اندھیرا بن سکتے تھے نہیں بنے

ہم دو چار محبت لکھنے والے لوگ
دنیا جیسا بن سکتے تھے نہیں بنے

خواب تلاوت ہو سکتا تھا نہیں ہوا
درد صحیفہ بن سکتے تھے نہیں بنے

اس برہا کے چاند کی صورت ہم بھی طریرؔ
رات کو کتبہ بن سکتے تھے نہیں بنے


Leave a comment

+