شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذاکر خان ذاکر

  • غزل


کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے


کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے
موسم گل سے جو نکلے تو خزاں سے گزرے

دل سے آنکھوں سے مکینوں سے مکاں سے گزرے
درد پھر درد ہے جب چاہے جہاں سے گزرے

حسن کی شوخ سری کا یہی حاصل نکلا
آتش عشق بڑھی آہ و فغاں سے گزرے

رقص کرتے ہی رہے خواب دھنوں پر لیکن
سانس کے تار سبھی سوز نہاں سے گزرے

با وضو ہو کے مرا ذکر جو کرتے تھے کبھی
آج پلٹے ہیں زباں سے وہ بیاں سے گزرے

وہ محبت ہو کے ایثار و وفا ہو ذاکرؔ
عشق کے تیر شب و روز کماں سے گزرے


Leave a comment

+