شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یاسمین حسینی زیدی نکہت

  • غزل


نہ کی جفاؤں میں اس نے کوئی کسر پھر بھی


نہ کی جفاؤں میں اس نے کوئی کسر پھر بھی
لگے ہوئے تھے امیدوں کو میری پر پھر بھی

تمہاری یاد سے وابستہ ہے حیات مری
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

تم اپنے گرد فصیلیں بنا کے بیٹھے ہو
ہوا تو ہوگا مری یاد کا گزر پھر بھی

چراغ آنکھوں کے ویران ہوتے جاتے ہیں
تمہاری راہ سے اٹھتی نہیں نظر پھر بھی

تمام روپ لیے چاندنی چلی آئی
ہمارا دل رہا تاریک ایک گھر پھر بھی

نہ روشنی ہے کوئی اور نہ راستے معلوم
چلے ہیں آج ترے ساتھ بے خطر پھر بھی

تمام عمر دیا میں نے اپنا خون جگر
ملا نہ مجھ کو کوئی سایۂ شجر پھر بھی

بہت تھی چاہ دل ناتواں رک جائے
طویل ہوتا گیا عمر کا سفر پھر بھی


Leave a comment

+