شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قمر اقبال

  • غزل


جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں


جینا ہے سب کے ساتھ کہ انسان میں بھی ہوں
چہرے بدل بدل کے پریشان میں بھی ہوں

جھونکا ہوا کا چپکے سے کانوں میں کہہ گیا
اک کانپتے دیے کا نگہبان میں بھی ہوں

انکار اب تجھے بھی ہے میری شناخت سے
لیکن نہ بھول یہ تری پہچان میں بھی ہوں

آنکھوں میں منظروں کو جب آباد کر لیا
دل نے کیا یہ طنز کہ ویران میں بھی ہوں

اپنے سوا کسی سے نہیں دشمنی قمرؔ
ہر لمحہ خود سے دست و گریبان میں بھی ہوں


Leave a comment

+