شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اسامہ خالد

  • غزل


کنڈی بجا کے اس لیے بھاگا نہیں ہوں میں


کنڈی بجا کے اس لیے بھاگا نہیں ہوں میں
دکھتا نہیں کسی کو تو سوچا نہیں ہوں میں

پچھلے برس کی بات ہے کچھ لوگ آئے تھے
دستک سنی تو کمرے سے چیخا نہیں ہوں میں

جانے میں کس کا جسم ہوں اور کس کے پاس ہوں
ڈھونڈا ہے خود کو ہر جگہ ملتا نہیں ہوں میں

لے جاؤ مجھ کو مجھ سے مگر ایک بات ہے
لمبے سفر کے واسطے اچھا نہیں ہوں میں

سایا ہوں اور دن ڈھلے بجھ وجھ گیا ہوں کیا
دیکھا ہے آج آئنہ دکھتا نہیں ہوں میں

ناخن چبھو کے بھانپ لو مجھ میں مرا وجود
کتنا ہوں اپنے آپ میں کتنا نہیں ہوں میں

ممکن ہے یہ ملال تمہیں بھی فریب دے
جیسا مجھے بنایا تھا ویسا نہیں ہوں میں

اک اک دکاں سے پوچھا کہ میں دستیاب ہوں
انکار سن کے بجھ گیا اچھا نہیں ہوں میں


Leave a comment

+