ناز قادری
- غزل
- سکوں نہ تھا مگر اتنا بھی انتشار نہ تھا
- سکوت ٹوٹنے والا ہے حادثہ ہوگا
- سچ ہے جب بھی کوئی حرف اس کی زباں سے نکلا
- صحن احساس میں اک نقش نہاں تھا پہلے
- گناہگار وفا لائق سزا لکھ دو
- گہے مکاں سے سنی گاہ لا مکاں سے سنی
- خواہ پتھر خواہ شیشہ آدمی
- حادثہ ایسا بھی زیر آسماں ہونا ہی تھا
- برائے نام سہی حاصل طلب ٹھہرا
- نہ کوئی تیر نہ کوئی کمان باقی ہے