وامق جونپوری
- زہراب پینے والے امر ہو کے رہ گئے
- ہو رہی ہے در بدر ایسی جبیں سائی کہ بس
- وہ تنہا میرے ہی درپئے نہیں ہے
- فن کار کے کام آئی نہ کچھ دیدہ وری بھی
- خلش سکوں کا مداوا نہیں تو کچھ بھی نہیں
- دیوانے دیوانے ٹھہرے کھیل گئے انگاروں سے
- مرے فکر و فن کو نئی فضا نئے بال و پر کی تلاش ہے
- ساز ہستی میں کچھ صدا ہی نہیں
- اس طرح سے کشتی بھی کوئی پار لگے ہے
- شیشہ اس کا عجیب ہے خود ہی
- حالات سے فرار کی کیا جستجو کریں
- ہمارے مے کدے کا اب نظام بدلے گا
- بلائے جاتے ہیں مقتل میں ہم سزا کے لیے
- برق سر شاخسار دیکھیے کب تک رہے
- نئے گل کھلے نئے دل بنے نئے نقش کتنے ابھر گئے
- زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
- کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے
- عمر کی رو بدل گئی شاید
- دل توڑ کر وہ دل میں پشیماں ہوا تو کیا
- دل کے ویرانے کو یوں آباد کر لیتے ہیں ہم
- دل ازل سے مرکز آلام ہے
- جو دشت خوابوں میں اکثر دکھائی دیتا ہے