شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذوالفقار نقوی

  • غزل


شعور و فکر سے آگے نکل بھی سکتا ہے


شعور و فکر سے آگے نکل بھی سکتا ہے
مرا جنون ہواؤں پہ چل بھی سکتا ہے

مرے گماں پہ اٹھاؤ نہ انگلیاں صاحب
گماں یقیں میں یقیناً بدل بھی سکتا ہے

پہاڑ اپنی قدامت پہ یوں نہ اترائیں
ابھر گیا کوئی ذرہ نگل بھی سکتا ہے

مرے لبوں پہ جمی برف سوچ کر چھونا
تمہارے جسم کا آہن پگھل بھی سکتا ہے

کوئی عصا بھی نہیں اور ہے اکیلا تو
امیر شہر کا اژدر نگل بھی سکتا ہے

ہمارے ساتھ جو چلنا ہے زاد رہ لے لو
کٹھن سے موڑ ہیں پاؤں پھسل بھی سکتا ہے

کرو نہ ضد کہ کسی شہر کی طرف جاؤں
مرے عزیز یہ دل ہے مچل بھی سکتا ہے

کر اپنے سائے سے راز و نیاز کی باتیں
بہت اداس ہے لیکن بہل بھی سکتا ہے

بس اک نظر جو کرم کی وہ اس طرف پھیرے
قدم بہک جو گیا ہے سنبھل بھی سکتا ہے


Leave a comment

+