شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ راجہ

  • غزل


تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے


تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے

کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہیے
آنکھ بھی خوں ہو گئی دامن بھی اب گلنے کو ہے

گلستاں میں پڑ گئی ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل خون دل ملنے کو ہے

اجنبی سی سرزمیں ناآشنا سے لوگ ہیں
ایک سورج تھا شناسا وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے

ہر نئی منزل کی جانب صورت ابر رواں
میرے ہاتھوں سے نکل کر میرا دل چلنے کو ہے

شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج
حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے

اک ہوائے تند اور ہم راہ کچھ چنگاریاں
خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے

سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے


Leave a comment

+