شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ راجہ

  • غزل


وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے


وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے
ہم کو ہنر تمام اسی زخم سے ملے

روشن ہے ساری زندگی اس دل کی آگ سے
اور دل کو آنچ اک سخن گرم سے ملے

جب رنگ و نور و نغمہ نہیں اختیار میں
اک اعتبار شوق ہی اس بزم سے ملے

دل کو لپیٹ لیتا ہے اک ریشمیں خیال
جب بھی نگاہ اس نگہ نرم سے ملے

اس دل کے سارے خواب محبت کے سب گلاب
اک شعر سے کھلے کبھی اک نظم سے ملے

ہم راہ چل رہا تھا فلک بھی تمام شب
یوں اہل خاک و خواب مہ‌ و نجم سے ملے

دل میں تو ان کی آب کوئی دیکھتا نہ تھا
در ثمین تھے جو در چشم سے ملے


Leave a comment

+