شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مجید امجد

  • غزل


عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں


عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں
روح کی مدہوش بے داری کا ساماں ہو گئیں

پیار کی میٹھی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں

اب لب رنگیں پہ نوریں مسکراہٹ کیا کہوں
بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہو گئیں

ماجرائے شوق کی بے باکیاں ان پر نثار
ہائے وہ آنکھیں جو ضبط غم میں گریاں ہو گئیں

چھا گئیں دشواریوں پر میری سہل انگاریاں
مشکلوں کا اک خیال آیا کہ آساں ہو گئیں


Leave a comment

+