شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

عبید الرحمان نیازی

  • غزل


کھو کر دن کی باتوں میں


کھو کر دن کی باتوں میں
گھبراتا ہوں راتوں میں

اندیشوں کا جنگل ہے
نفرت کی سوغاتوں میں

ساون میں آنسو یعنی
برساتیں برساتوں میں

نادیدہ شیرینی ہے
سچے رشتے ناطوں میں

خستہ حالی دیکھی ہے
مزدوروں کے ہاتھوں میں

کٹیا لے کر کتنے خواب
ڈوبی تھی برساتوں میں

یادیں گیت سناتی ہیں
تنہا ساکت راتوں میں


Leave a comment

+