شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مجاہد فراز

  • غزل


بدن کی قید سے باہر ٹھکانا چاہتا ہے


بدن کی قید سے باہر ٹھکانا چاہتا ہے
عجیب دل ہے کہیں اور جانا چاہتا ہے

ابھی دکھاؤ نہ تصویر زندگی اس کو
یہ بچپنا ہے ابھی مسکرانا چاہتا ہے

ہر ایک رت نہیں بھاتی ہماری آنکھوں کو
ہمارا خواب بھی موسم سہانا چاہتا ہے

گھٹن ہو دل میں تو پھر شاعری نہیں ہوتی
غزل کا شعر فضا شاعرانہ چاہتا ہے

ترے بغیر بھی زندہ ہوں دیکھ لے اے دوست
اب اور کیا تو مجھے آزمانا چاہتا ہے

میں ان امیروں کی آنکھوں میں یوں کھٹکتا ہوں
کہ مجھ غریب کو سارا زمانہ چاہتا ہے

میں جاں نثار کروں اس پہ چاہتا ہوں مگر
وہ آسماں سے ستارے منگانا چاہتا ہے

ان آندھیوں کو یہی خوف کھائے جاتا ہے
فرازؔ پھر سے دیا اک جلانا چاہتا ہے


Leave a comment

+