شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید شاہین

  • غزل


کہیں گریباں کوئی چاک ہونے والا ہے


کہیں گریباں کوئی چاک ہونے والا ہے
یہ حادثہ سر افلاک ہونے والا ہے

پہنچ رہا ہوں کسی بھید کے بہت نزدیک
کہ جیسے اپنا ہی ادراک ہونے والا ہے

اترنے والی ہے اب اوس دن کے جانے پر
اندھیرا شام کا نمناک ہونے والا ہے

ہے سرد اتنا مکاں اب کی بار جاڑے میں
بدن بھی آگ کا خاشاک ہونے والا ہے

کچھ آ رہا ہے اثر مے کا اس کی باتوں میں
یہ لگ رہا ہے وہ بے باک ہونے والا ہے

بغور دیکھ رہا ہوں میں اس کا طرز عمل
وہ کار عشق میں چالاک ہونے والا ہے

میں آپ اپنی خرابی کا ہوں سبب شاہیںؔ
جو خود بنایا تھا اب خاک ہونے والا ہے


Leave a comment

+