شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسرتؔ عظیم آبادی

  • غزل


اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا


اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
اس کوچے میں کم ہی رہے گا کام ہمارا

ہے سخت مرے درپئے جاں تیرا غم ہجر
جاناں سے کہے جا کوئی پیغام ہمارا

جاگیر میں ہے غیر کی وہ بوسۂ لب گو
قائم رہے یہ منصب دشنام ہمارا

ہونے نہیں پاتے یہ مرے دیدۂ تر خشک
دولت سے تری تر ہے سدا جام ہمارا

دو دن میں کسی کام کا رہنے کا نہیں تو
کچھ تجھ سے نکل لے کبھی تو کام ہمارا

اک روز ملا عالم مستی میں جو ہم سے
تنہا بت بدمست مے آشام ہمارا

شمشیر علم کر کے لگا کہنے رکھوں ٹھور
بدنام تو کرتا پھرے ہے نام ہمارا

ایام کے ہر ذکر سے اور فکر سے فارغ
یا عشق ہے ورد سحر و شام ہمارا

ہوتا نہ فریبندۂ دل کاش کے حسرتؔ
آغاز میں یہ عشق بد انجام ہمارا


Leave a comment

+